گھر بسانے کی تمنا کوچۂ قاتل میں ہے

زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے

شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے

اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے

چاک کو دیتے ہیں گردش دیکھ کر گِل کا خمیر

اک پرانی رسم ہم کوزہ گرانِ گِل میں ہے

مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار

دائرہ کیسے بنے، پرکارِ جاں مشکل میں ہے

دے گیا ہے ڈوبتا سورج اُجالے کی نوید

ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں ہے

عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیرؔ

جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]