گھمکول کی وادی کے ہیں رنگ جدا گانہ

حضرت خواجہ زندہ پیر ( گھمکول شریف، کوہاٹ )

گھمکول کی وادی کے ہیں رنگ جدا گانہ

رندوں کی یہ بستی ہے ماحول ہے رندانہ

جس وقت جہاں سے بھی میخوار چلے آئیں

ہر آن کھلا دیکھا ساقی ترا میخانہ

وہ جام محبت کے بھر بھر کے پلاتے ہیں

گھمکول کے ساقی کا گردش میں ہے پیمانہ

جب ذکرِ الٰہی کے یاں جام چھلکتے ہیں

پھر گونجنے لگتا ہے اک نعرۂ مستانہ

دہلیز پہ سلطاں کی دیکھانہ قلندر کو

سلطان یہاں لیکن آتے ہیں غلامانہ

حق بات سدا کہتے ہو سامنے کوئی بھی

تھا فقر طبیعت میں پر رعب تھا شاہانہ

گھمکول کے خواجہ کی یہ زندہ کرامت ہے

یہ کوہ و دمن روشن آباد یہ ویرانہ

کیا عجزکے پیکر ہیں وارث مرے خواجہ کے

بس دل میں اترتا ہے انداز فقیرانہ

اتنی سی تمنا ہے بس آج مرے خواجہ

آیا ہے جلیل، اس کا منظور ہو نذرانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]