گھٹا فیضان کی امڈی ہوئی ہے

چمن کی ہر کلی نکھری ہوئی ہے

حرا کا چاند پہنچا ہے فلک پر

عرب کی سرزمیں اونچی ہوئی ہے

لبا لب بھر گیا ہے ظرف امکاں

تجلی اس قدر پھیلی ہوئی ہے

زمیں پر آسماں اترا ہے یا پھر

بلندی پر زمیں پہنچی ہوئی ہے

غرور و عرش و کرسی مٹ گیا ہے

نگاہ کہکشاں نیچی ہوئی ہے

فلک پر بے جھجک یوں جا رہے ہیں

کہ جیسے ہر جگہ دیکھی ہوئی ہے

ذرا طغیان شوق ان کا بھی دیکھو

کہ سد دو کماں ٹوٹی ہوئی ہے

عجب رقت ہے حوران جناں پر

فضا فردوس کی بھیگی ہوئی ہے

نہیں سدرہ ہی ان کے لطف سے خم

نگوں ہر شاخ طوبیٰ بھی ہوئی ہے

شب معراج کے احوال پڑھ کر

خرد کو چوکڑی بھولی ہوئی ہے

ہوئے ہیں عرش پر بخشش کے وعدے

سقر کی شعلگی ٹھٹھری ہوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]