ہجر میں جو لی گئی تصویر ہے

یہ ہماری آخری تصویر ہے

موت بھرتی جا رہی ہے اپنے رنگ

زندگی مٹتی ہوئی تصویر ہے

تم جسے کہتے ہو جسموں کی قطار

اصل میں دیوار کی تصویر ہے

یار لوگوں سے گلے ملنا ہے کیا

کوئی پتّھر ہے کوئی تصویر ہے

مٹ گئی تصویر پہلے عشق کی

سامنے اب دوسری تصویر ہے

جتنی تصویریں ہیں میرے سامنے

سب سے اچّھی آپ کی تصویر ہے

کچھ نہیں بدلا تمہارے بعد بھی

زندگی تصویر تھی ‘ تصویر ہے

روح نے رکّھا ہوا ہے سب بھرم

ورنہ ہر اک آدمی تصویر ہے

ڈھل گئی ہے پیاس میری نقش میں

یہ جو پانی پر بنی تصویر ہے

ہاتھ میں ٹکڑے خطوں کے ہیں فقـیہہؔ

آنکھ میں جلتی ہوئی تصویر ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]