ہجر میں سوزِ دل تو ہے خیرِ انام کے لیے

دیکھیے کب ہو حاضری در پہ سلام کے لیے

اُسوۂ شاہِ دیں کا ہو دل پہ طلوع آفتاب

تاکہ شفق ٹھہر سکے زیست کی شام کے لیے

ان کا پیام جزوِ جاں ایسے بنایئے کہ پھر

مژدۂ جاں فزا ملے، عیشِ دوام کے لیے

اہلِ جنوں بھی مصلحت کوش ہوئے عجیب ہے!

برق و شرار تھا جنوں سارے ظِلام کے لیے

تیغِ یقیں بھی آگئی حیف نیامِ وقت میں!

کس نے بنا دیا نیام ایسی حُسام کے لیے

امتیٔ شہِ زمن ایسا عقاب تھا کبھی

جس کی شبیہ تک نہ تھی دانہ و دام کے لیے!

کاش کبھی میں کہہ سکوں خواب میں آیئے حضور !

دل کا چمن کھلا ہے آج لطفِ خرام کے لیے

کیسے دعا بدل سکے اپنا نظامِ زندگی

چاہیے اُن کی پیروی، اُن کے نظام کے لیے

دل کی صدا کی گونج ہے ارضِ حجاز تک عزیزؔ

کاش اشارہ وہ کریں اپنے غلام کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]