ہجر کے کرب سے ، یوں لَف سے ، نکل آئیں گے

سازِ وحشت ہیں ، کسی دَف سے نکل آئیں گے

ہاتھ پہ لکھے ہوئے حرف چھپا لو ، ورنہ

سینکڑوں راز مخفف سے نکل آئیں گے

اتنے دشمن تو خدایا کسی دشمن کے نہ ہوں

ہاتھ جھٹکوں تو کئی کَف سے نکل آئیں گے

وقت پڑنے پہ مددگار ہیں آنسو میرے

ایک آواز پہ سَو ، صَف سے نکل آئیں گے

تم بلاؤ تو سہی شوق ملاقات میں ہم

جس بھی حالت میں ہوئے ، رَف سے ، نکل آئیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]