ہر رات ہے پُر نور ہر اک صبح سہانی

دیکھی ہے ترے شہر کی وہ نور فشانی

کیوں اور کسی در پہ کروں اپنی جبیں خم

جب آپ سے ملتا ہے مجھے دانہ و پانی

ہے کتنا گراں مایہ زرِ خاکِ مدینہ

اُس شہر کا ممکن ہی نہیں ہے کوئی ثانی

پوچھیں گے نکیرین جو مَاکُنْتَ تَقُوْلُ

ان کو بھی جواباً ہے تری نعت سنانی

اُن کا ہوں غلام اُن کے ہی نعلینِ کرم بار

سینے پہ سجاتا ہوں سند بہرِ نشانی

جو روشنی گنبد سے شب و روز عیاں ہے

مخرج ہے ہرا، اس کا تبھی رنگ ہے دھانی

ہے حکمِ شریعت کہ نہ ہو سجدۂ تعظیم

دل کرتا رہا سجدے مری ایک نہ مانی

وہ اذنِ حرم دستِ کرم سے مجھے دیں گے

ہر نعت میں لکھتا ہوں تبھی ہجر کہانی

منظر یہ نہیں مشقِ سخن، خونِ جگر ہے

یہ عجز بیانی ہے مری عجز بیانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]