ہر زمانہ ہی ترا مدح سرا لگتا ہے

تیرا خالق بھی شہا تجھ پہ فدا لگتا ہے

چہرہِ پاک کے گرویدہ ہوئے شمس و قمر

حسنِ عالم ترے قدموں کی ضیا لگتا ہے

کہیں عظمت کہیں رحمت کہیں بخشش کا بیاں

سارا قرآن ہی مصروفِ ثنا لگتاہے

اونچی آواز نہ کرنا کبھی در پر اُن کے

رب کے محبوب ہیں وہ رب کو بُرا لگتاہے

وادیِ رحمت و راحت ہے مدینہ آقا

ہر کوئی شخص یہاں غم سے رہا لگتاہے

میرے غمخوار پہ سب حال مرا روشن ہے

یہاں دُکھ درد کا اظہار خطا لگتاہے

ذکرِ سرکارِ دوعالم ہے فقط راحتِ جاں

ذکرِ سرکار ہی ہر غم کی دوا لگتا ہے

اُلفتِ آلِ نبی جس کو نہیں دور رہے

تیرے اصحاب ؓکا منکر مرا کیا لگتا ہے

تیری دہلیز پہ جب سر کو جھکا دیتا ہوں

ہر خزانہ مرے قدموں میں پڑا لگتا ہے

عظمتِ کون و مکاں خم ہے یہاں یاد رہے

جتنا جھکتا ہے کوئی اُتنا بڑا لگتا ہے

کیسا پُرکیف ہے چہرہ ترا کیا رونق ہے

شہرِ سرکار سے آئے ہو پتا لگتا ہے

عجز ہوتا ہے طبیعت میں تو اشک آنکھوں میں

تیرا عاشق بھری محفل میں جُدا لگتا ہے

روز انعامِ ثنا ملتاہے ہم کو رب سے

اب تو ہر دن ہی ہمیں روزِ جزا لگتا ہے

سن کے یہ نعت شکیلؔ اہلِ نظر بول پڑے

درِ سرکار سے کچھ پردہ ہٹا لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]