ہر مراد منہ مانگی بالیقیں وہ پائیں گے

جو بھی میرے خواجہ کے در سے لو لگائیں گے

غور سے وہ سنتے ہیں اور کام آتے ہیں

داستانِ رنج و غم ہم انہیں سنائیں گے

ہوگا خوشنما منظر اس اجاڑ بستی کا

میرے دل کی نگری کو آپ جب بسائیں گے

دامنِ نظر اپنا خوب بھر کے لوٹوں گا

صدقۂ جمال اپنا آپ جب لٹائیں گے

مرجع خلائق ہے آستانۂ خواجہ

کل جہاں کے باشندے دیکھنے میں آئیں گے

واہ کیا تصرف ہے واہ کیا عنایت ہے

خود تو بانٹتے ہی ہیں، رب سے بھی دلائیں گے

اس قدر سکوں پایا ، اسقدر ملی راحت

چھوڑ کر تمہارا در ہم کہیں نہ جائیں گے

کیوں کسی کے ٹکڑوں سے آشنا کریں منھ کو

آپ ہی کا کھاتے ہیں آپ ہی کا کھائیں گے

آپکے فضائل تو بے کراں سمندر ہیں

ذہن تنگ میداں میں وہ کہاں سمائیں گے

جانتے ہیں یہ سودا حیثیت سے بڑھ کر ہے

پھر بھی کیا رخ روشن ہم بھی دیکھ پائیں گے

غم کی دھوپ ہو سر پر یا خوشی کے سائے ہوں

ہم تمہاری الفت کے گیت یوں ہی گائیں گے

کٹ ہی جائیگا رستہ زندگی کے صحرا کا

جب تمھاری یادوں کو ہمسفر بنائیں گے

بحر زندگانی میں ہر طرف تلاطم ہیں

اب تو نورؔ کا بیڑا آپ ہی بچائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]