ہر موڑ پر ٹھہر کے کریں راستے کی جانچ

اس درجہ احتیاط کے قائل نہیں تھے ہم

غفلت جو تھی اگر تو بس اپنے ہی حال سے

حالت سے دوستوں کی تو غافل نہیں تھے ہم

خوابوں کی آبرو بھی پسِ پشت ڈال دیں

اتنے بھی زیرِ بارِ مسائل نہیں تھے ہم

گزری تو خیر جیسی بھی لیکن لگا ہمیں

اُس انتظارِ زیست کا حاصل نہیں تھے ہم

شکوہ نہیں ہے بابِ اثر سے ہمیں ظہیرؔ

اپنی دعائے خیر میں شامل نہیں تھے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]