ہزار زخم دلِ کم نصیب نے جھیلے

کوئی مذاق نہ تھا عشق بارہا کرنا

پھر اس کے بعد بھلے زندگی رہے نہ رہے

پھر اس کے بعد بھلا زندگی کا کیا کرنا

قصور صرف یہی تھا کہ رقصِ جان کنی

ترے فقیر نے سیکھا نہ جابجا کرنا

کسی بھی طور سے آغاز ہو کسی شے کا

دلِ تباہ کی فطرت ہے انتہا کرنا

نہیں یہ صرف مسافت کے روگ ہم نفسو

ہمیں پڑا ہے قیامت کا سامنا کرنا

یہ کیا کہ پِیٹ کے بس تالیاں ہی لوٹ گئے

تماش بین ، تماشے کا حق ادا کرنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]