ہماری نعت گوئی ہے نمود اک نورِ ایماں کی

ثنا ممکن نہیں انساں سے اس ممدوحِ یزداں کی

میں کس صورت سے دوں تشبیہ ان کے روئے تاباں کی

نہ صورت مہر کی ایسی نہ مہتابِ درخشاں کی

رسائی مرتبہ تک ان کے کب ہے فہمِ انساں کی

اسے تو فی الحقیقت جانتی ہے ذات یزداں کی

حبیبِ کبریا ہے وہ بِنا ہے بزمِ امکاں کی

اسی نے سیر کی اسریٰ میں جلوہ گاہِ یزداں کی

خدا اس کی رسالت پر قسم کھاتا ہے قرآں کی

اسی نے ناخدائی کی بالآخر نوعِ انساں کی

نہ کیوں ممنون ہو ساری خدائی ان کے احساں کی

بدل دی آ کے آقا نے مرے تقدیر انساں کی

ہمارے پاس ان کی دی ہوئی مشعل ہے ایماں کی

خدائی چل نہیں سکتی کسی فرعون و ہاماں کی

کھلے گلہائے تر، مہکی روش، چہکے عنادل بھی

وہ کیا آئے کہ قسمت کھل گئی اپنے گلستاں کی

شہنشاہِ دو عالم کا وہ عالی آستانہ ہے

جبینِ عاجزی خم ہو جہاں پر میر و سلطاں کی

رسالت منتہی ان پر نبوت مختتم ان پر

نظرؔ اس میں جسے شک ہو وہ مانگے خیر ایماں کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]