ہمیں شعور جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے

نگاہ بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے

تو اے بہار گریزاں کسی چمن میں رہے

مرے جنوں کی مہک تیرے پیرہن میں رہے

مجھے نہیں کسی اسلوب شاعری کی تلاش

تری نگاہ کا جادو مرے سخن میں رہے

نہ ہم قفس میں رکے مثل بوئے گل صیاد

نہ ہم مثال صبا حلقۂ رسن میں رہے

کھلے جو ہم تو کسی شوخ کی نظر میں کھلے

ہوئے گرہ تو کسی زلف کی شکن میں رہے

سرشک رنگ نہ بخشے تو کیوں ہو بار مژہ

لہو حنا نہیں بنتا تو کیوں بدن میں رہے

ہجوم دہر میں بدلی نہ ہم سے وضع خرام

گری کلاہ ہم اپنے ہی بانکپن میں رہے

یہ حکم ہے رہے مٹھی میں بند سیل نسیم

یہ ضد ہے بحر تپاں کوزۂ کہن میں رہے

زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ

ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]