ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں
ہم ترے در کی اٹھاتے ہیں قسم ، تیرے ہیں
چوم کر جن کو ملے کیف و سرور و مستی
کیسے تاثیر رسا نقشِ قدم تیرے ہیں
غم دنیا کبھی پہلے ، نہ اب ہوگا کبھی
شکرِ ایزاد! کہ مرے سینے میں غم تیرے ہیں
ہوں ابوبکرؓ و عمرؓ ، یا کہ ہوں عثمانؓ و علیؓ
سارے تابندہ یہ اصحابِ حشم تیرے ہیں
خوف کیا پیاس کی شدت کا بروزِ محشر
ہم کہ پروردہ و آسودہ ء یم تیرے ہیں
تو گدایانِ محمد کا گدا ہے ارسل
بس اسی واسطے دنیا میں بھرم تیرے ہیں