ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں​

ہم ترے در کی اٹھاتے ہیں قسم ، تیرے ہیں​​

چوم کر جن کو ملے کیف و سرور و مستی​

کیسے تاثیر رسا نقشِ قدم تیرے ہیں​​

غم دنیا کبھی پہلے ، نہ اب ہوگا کبھی​

شکرِ ایزاد! کہ مرے سینے میں غم تیرے ہیں​​

ہوں ابوبکرؓ و عمرؓ ، یا کہ ہوں عثمانؓ و علیؓ

سارے تابندہ یہ اصحابِ حشم تیرے ہیں​​

خوف کیا پیاس کی شدت کا بروزِ محشر​

ہم کہ پروردہ و آسودہ ء یم تیرے ہیں​​

تو گدایانِ محمد کا گدا ہے ارسل​

بس اسی واسطے دنیا میں بھرم تیرے ہیں​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]