ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے
جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے
ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے
میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے
پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار
در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے
رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں
قسمت سے ہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے
سونے کے بدل بکتی ہے بازار میں خوشبو
پھولوں کو مگر قیمتِ خاشاک ملی ہے
رکھتے ہیں امانت کی طرح نقدیِ جاں کو
وہ لوگ جنہیں دولتِ ادراک ملی ہے
دیتے ہوئے ڈرتا ہوں اُسے جامۂ الفاظ
خامے کو طبیعت مرے بے باک ملی ہے
دریا کے کنارے بھی کہیں ملتے ہیں لوگو؟
دھرتی سے کہیں سرحدِ افلاک ملی ہے؟