ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے

جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے

ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے

میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے

پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار

در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے

رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں

قسمت سے ہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے

سونے کے بدل بکتی ہے بازار میں خوشبو

پھولوں کو مگر قیمتِ خاشاک ملی ہے

رکھتے ہیں امانت کی طرح نقدیِ جاں کو

وہ لوگ جنہیں دولتِ ادراک ملی ہے

دیتے ہوئے ڈرتا ہوں اُسے جامۂ الفاظ

خامے کو طبیعت مرے بے باک ملی ہے

دریا کے کنارے بھی کہیں ملتے ہیں لوگو؟

دھرتی سے کہیں سرحدِ افلاک ملی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]