ہم کہاں مدحتِ سرور کا ہنر رکھتے ہیں

حرفِ توصیف میں بس دیدۂ تر رکھتے ہیں

وہ جسے چاہیں گے تعبیر عطا کر دیں گے

ان کی دہلیز پہ ہر خواب کا سر رکھتے ہیں

موند کر آنکھ مواجہ پہ پہنچ جائیں گے

ہم تہی دست یہی طرزِ سفر رکھتے ہیں

بابِ تعبیر پہ اک ناقہ سوار آئے گا

عجز پلکوں کا سرِ راہ گزر رکھتے ہیں

شب گزیدہ ہیں اندھیروں کے طرف دار نہیں

اپنی پلکوں پہ تمنائے سحر رکھتے ہیں

تیری نسبت ہی نے شاداب کیا ہے ورنہ

خشک اشجار کہاں برگ و ثمر رکھتے ہیں

پیش کر دیں گے سرِ جلوہ گہِ شاہِ امم

اپنی پلکوں میں پس انداز گہر رکھتے ہیں

جس کو دو لخت کریں وہ جسے الٹا پھیریں

نوکِ انگشت پہ خورشید و قمر رکھتے ہیں

دربدر ہونے کی اشفاقؔ ضرورت ہی نہیں

ہاتھ پھیلانے کو سرکار کا در رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]