ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے
زندگی میں بھی زندگی کم ہے
کیا ہوا تجھ کو میرے شہرِ سخن
شعر اتنے ہیں ، شاعری کم ہے
کتنا لمبا ہے ہجر کا رستہ
تیری یادوں کو ڈائری کم ہے
ٹھوکریں لگ رہی ہیں کیوں اتنی
آنکھ بند ہے کہ روشنی کم ہے
میں بھی عادی سا ہوگیا غم کا
تیرے چہرے پہ بھی خوشی کم ہے
کھول دے راستہ سمندر کا
دیکھ آنکھوں میں تشنگی کم ہے
منہ چھپایا ہے آئینے سے زبیر
یہ ندامت ہے عاشقی کم ہے