ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا

وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا

مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر

جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے

سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا

خبر کوئی کر دے دلِ بے خبر کو

قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر

جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا

وجود آدمی ہے، تو ہے زندگی عکس

کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی

یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]