ہوائے ظلم سر کربلا چلی کیا ہے
نبی کے باغ پہ چھائی افسردگی کیا ہے
گلے پہ تیرِ ستم کھا کے کر دیا
کہ شیر خوار کی شانِ سپہہ گری کیا ہے
جھکائے سایۂ شمشیر میں نہ سر کیونکر
حسینؑ جانتے تھے حق کی بندگی کیا ہے
دکھاتے منزلِ حق کی نہ راہ کیوں سرور
وہی تو جانتے تھے طرزِ رہبری کیا ہے
غم حسین میں رو رو کے دن گزارتے ہیں
مجھے خبر نہیں پرتاپؔ اب خوشی کیا ہے