ہوائے مہر و محبت سوادِ جاں سے چلے

فصیلِ درد گرائے جہاں جہاں سے چلے

ہوا ہے شہر میں دستورِ مصلحت کا نفاذ

کوئی تو رسمِ جنوں بزمِ عاشقاں سے چلے

وصال و ہجر کے موسم گزر چکے ہیں سبھی

سو آج ہم بھی تری بزمِ امتحاں سے چلے

وہ مرحلے تری جانب جو طے کئے تھے کبھی

بھُلا کے ہم تری خاطر لو درمیاں سے چلے

فرازِ دار، نشیبِ چمن، حصارِ جنوں

یہ سلسلے تری جانب کہاں کہاں سے چلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]