ہوتا ہے بازگشت میں جیسے صدا کے ساتھ

میرے قدم قدم پہ سزا تھی سزا کے ساتھ

اِک طاق پر چراغ جلانے کی چاہ میں

کرنی پڑی ہے دوستی ہم کو ہوا کے ساتھ

سوتا ہوں روز رات کو آغوشِ آہ میں

ہر صبح جاگتا ہوں کسی بدعا کے ساتھ

کیسے کرو گے اُس کی وفا کا یقین تم

کوئی جو چل پڑا ہے کسی کو بھُلا کے ساتھ

شکوہ نہیں ہے مرتضیٰ تقدیر سے ہمیں

مانگا تھا اُس سے اُسکو ، اُسی کی رضا کے ساتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]