ہُوئی تھی اُن سے ملاقات خاکِ طیبہ کی

بجا ہے وجہِ مباہات خاک طیبہ کی

مجھے بھی زعم ہے صدیوں کے ربطِ نسبت کا

کہ پور پور میں ہے ذات خاکِ طیبہ کی

گراں نہ ہو تو مرے زائرینِ فرخندہ

سناؤ پھر سے کوئی بات خاکِ طیبہ کی

زباں کو ذائقہ، آنکھوں کو نُور بانٹتی ہے

عجب ہے طُرفہ مُدارات خاکِ طیبہ کی

اُداس شب میں کرن کے نصیب جاگتے ہیں

ضیا نواز ہے خود رات خاکِ طیبہ کی

فروغِ دید، نمودِ شفق، طلوعِ سحر

کرن کرن ہیں کرامات خاکِ طیبہ کی

بحال رہتا ہے اُس کے فقیرِ راہ کا رزق

جہاں میں عام ہے خیرات خاکِ طیبہ کی

کفِ طلب سے ہی دامن میں جا اُترتی ہیں

کہ دیدنی ہیں عنایات خاکِ طیبہ کی

کفن سے باندھنا قرطاسِ نعت میں رکھ کر

مرے عزیزو! یہ سوغات خاکِ طیبہ کی

اسی لیے تو ہے مقصودؔؔ سانس سانس درود

یہ زندگی ہے مکافات خاکِ طیبہ کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]