ہیں نصف بیاں سینہِ صد چاک کے گھاؤ

مصرع جو اٹھاتے ہو تو آنکھیں بھی اٹھاؤ

پس ماندہِ امواجِ تجسس کے جنوں نے

تھک ہار کے ڈالا ہے تہہِ آب پڑاؤ

اس دور کو معمول ہیں اعجاز تمہارے

ائے عہدِ گزشتہ کے تہی دست خداؤ

کچھ اور عمل ہو کہ ابھی کچھ نہیں بدلا

جادو کی چھڑی اور کسی سمت گھماؤ

ہر چند کہ سو رنگ سے دل مار کے دیکھا

اترے ہی نہیں گردشِ حالات کے چاؤ

ابھرا ہے تری جھیل سی آنکھوں کا تصور

کھیلا ہے مری پیاس نے اک آخری داؤ

سب کچھ ہے مرے ہاتھ میں بس وقت نہیں ہے

گر لوٹ کے آتے ہو تو رفتار بڑھاؤ

یوں بھی رہی اشعار میں تا عمر روانی

منہ زور رہا درد کے دریا کا بہاؤ

دل ہے کہ بھڑکنے کو سلگتا ہے ازل سے

سنتی ہو؟ ارے ہجر کی پر شور ہواؤ؟

وہ دور دمکتی ہوئی چنگاریاں کیا ہیں

جلتے ہوئے خیمے ہیں کہ روشن ہیں الاؤ؟

کیا خوب ہو گر ضبط مجھے پھونک دے ناصر

تم بھی جو مجھے ڈھونڈنے آؤ تو نہ پاؤ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]