ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود

دنیا سمٹ رہی ہے، بکھرنے کے باوجود

راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے

ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود

اس بحرِ کائنات میں ہر کشتی انا

غرقاب ہو گئی ہے ابھرنے کے باوجود

شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس

بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود

زیرِ قدم ہے چاند، ستارے ہیں گردِ راہ

دھرتی پہ آسماںِ سے اترنے کے باوجود

میں اس مقام پر تو نہیں آ گیا کہیں

ہو گی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود

الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں

زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

ابہامِ آگہی سے میں اپنے وجود کا

اقرار کر رہا ہوں ، مکرنے کے باوجود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]