ہے اگرچہ کارِ مشکل شہِ دوسرا کی مدحت

مرے قلب و جاں کو لیکن اسی مشغلے میں راحت

وہ نبی اُمی ایسا کہ نہیں ہے کوئی اس سا

وہ نگینۂ نبوت وہ تتمۂ رسالت

وہ ہے حسن کا مرقع وہ ہے خلق کا نمونہ

زہے پُر جمال سیرت زہے تابدار سیرت

کہوں اس کو ماہِ کامل تو ہے ناقص استعارہ

نہیں کوئی شے بھی ایسی جسے دوں میں اس سے نسبت

اسی آفتاب سے ہے یہ ضیائے علم وعرفاں

ہوا مستنیر اسی سے یہ جہانِ جہل و ظلمت

تہِ قعرِ صد مذلت تھا ذلیل ابنِ آدم

وہی دستگیر پہنچا تو ملی ہے اس کو رفعت

بہی خواہِ بندگاں وہ کوئی دوست ہو کہ دشمن

وہ کریم اور بے حد وہ رحیم بے نہایت

جو کتاب اس پہ اتری وہ ہے لازوال و کامل

ہے چراغِ راہ و منزل بخدا ہر ایک آیت

ہے جو حرف حرف حکمت تو کلام ایسا معجز

اسے لاکھ بار پڑھئے تو نہ کم ہو شوق و رغبت

تری مغفرت کا امکاں ہے نظرؔ حساب کے دن

وہی تاجدارِ بطحا کو کریں تری شفاعت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]