ہے ناطِقِ مَا اَوْحٰی اِک تیرا دہن جاناں

تو روحِ معانی ہے تو جان سخن جاناں

تاروں میں چمک تیری ہے جلوہ فگن جاناں

پھولوں میں تِری خوشبو ، تو اصلِ چمن جاناں

گر آؤ گلستاں میں ،گُل کترے قبا اپنی

قدرت نے تراشا یوں ہے تیرا بدن جاناں !

کیا ماہِ دو ہفتہ پر ملبوس گلابی ہے

یا حُلّۂِ حمرا میں ہے تیرا بدن جاناں

کی رب نے خریداری یوں تیرے غلاموں سے

جانیں ہیں مبیع ان کی ،جنت ہے ثمن جاناں

قربان نہ کیوں ہوتا پھر چاند بھی شق ہو کر

جوبن پہ جو چمکی تھی انگلی کی کرن جاناں

مخمور نگاہوں سے گر تیرا اشارہ ہو

نشّہ ہو عدو کا سب لمحے میں ہرن جاناں !

سلطانِ بلاغت بھی اِک حرف تِرا سن کر

رکھتا ہے ترے قدموں میں سارا سخن جاناں

جلووں سے ترے روشن ہو گھر بھی شہا ، جیسے

مدحت سے معظمؔ کا پر نور ہے فن جاناں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]