ہے گزارش میری ذاتِ کبریا کے سامنے

میں ملوں خود کو درِ صلّیِ علیٰ کے سامنے

میں جیوں تو سانس میری اُس نگر کی ہو رہین

میں مروں تو روضۂ خیرالوریٰ کے سامنے

جس نے ظلمت کو اُجالوں کی بشارت بخش دی

اِک دیا روشن رہا سرکش ہوا کے سامنے

جس کو تیرا دامنِ رحمت میسر آگیا

بے خطر آیا وہ ہر برق و بلا کے سامنے

میں پلک جھپکوں تو جا پہنچوں تری سرکار میں

عرض رکھ دی ہے محمد مصطفیٰ کے سامنے

حشر کا مجھ کو نہیں ہے خوف کوئی مرتضیٰؔ

میں اُٹھوں گا شافعِ روزِ جزا کے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]