یاد میں ان کی جو گزرے زندگانی اور ہے

دین کے جو کام آئے وہ جوانی اور ہے

ہم کو ہے تسلیم عظمت آبِ زم زم کی مگر

انگلیوں سے ان کی جو نکلا وہ پانی اور ہے

ہے شبِ معراج کا یہ طُور سے اب تک خِطاب

لن ترانی اور لُطفِ من الراٰنی اور ہے

صرف اُن سے تُو سلامِ شوق کہنا اے صبا

جو دلِ مُضطر پہ گزری وہ کہانی اور ہے

ایک بار آقا کے روضے پر پہنچ جانے تو دو

اس دلِ بے تاب میں کُچھ ہم نے ٹھانی اور ہے

موت آئے جالیوں کے رو برو مجھ کو اگر

پھر ملے گی جو حیات جاودانی اور ہے

فاتحیں آئے بڑے اور حکمراں کتنے ہوئے

فاتحِ مکہ نے کی جو حکمرانی اور ہے

غیر کی وضع و تمدن پر فدا ہونا نہیں

اے غلامِ مصطفیٰ تیری نشانی اور ہے

سارے دیواں سب تخیُل سب کا اُسلُوب اِک طرف

اعلیٰ حضرت نے جو کی وہ مدح خوانی اور ہے

دُھوم آمد کی مچا کر آج مرزا قادری

نجد کے ایوان میں بجلی گرانی اور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]