یاد میں ان کی جو گزرے زندگانی اور ہے
دین کے جو کام آئے وہ جوانی اور ہے
ہم کو ہے تسلیم عظمت آبِ زم زم کی مگر
انگلیوں سے ان کی جو نکلا وہ پانی اور ہے
ہے شبِ معراج کا یہ طُور سے اب تک خِطاب
لن ترانی اور لُطفِ من الراٰنی اور ہے
صرف اُن سے تُو سلامِ شوق کہنا اے صبا
جو دلِ مُضطر پہ گزری وہ کہانی اور ہے
ایک بار آقا کے روضے پر پہنچ جانے تو دو
اس دلِ بے تاب میں کُچھ ہم نے ٹھانی اور ہے
موت آئے جالیوں کے رو برو مجھ کو اگر
پھر ملے گی جو حیات جاودانی اور ہے
فاتحیں آئے بڑے اور حکمراں کتنے ہوئے
فاتحِ مکہ نے کی جو حکمرانی اور ہے
غیر کی وضع و تمدن پر فدا ہونا نہیں
اے غلامِ مصطفیٰ تیری نشانی اور ہے
سارے دیواں سب تخیُل سب کا اُسلُوب اِک طرف
اعلیٰ حضرت نے جو کی وہ مدح خوانی اور ہے
دُھوم آمد کی مچا کر آج مرزا قادری
نجد کے ایوان میں بجلی گرانی اور ہے