یار ! تُو میرے درد کو میری سخن وری نہ جان

چیخ کو شعر مت سمجھ، آہ کو شاعری نہ جان

سطح پہ تو سکون ھے، تہہ میں بڑا جنون ھے

جھیل کی خامشی کو تُو جھیل کی خامشی نہ جان

تُو مرا پہلا عشق تھا، تُو مرا پہلا عشق ھے

بات تو ٹھیک ھے مگر پہلے کو آخری نہ جان

شوق ھو چاھے دید ھو، جو بھی ھو، بس شدید ھو

دیکھ تو سرسری نہ دیکھ، جان تو سرسری نہ جان

اِتنا نہ خود فریب بن، ایسے نہ خود سے جھوٹ بول

عشقِ زیاں نصیب کو حاصلِ زندگی نہ جان

جسم کے آر پار دیکھ، روح کا شاھکار دیکھ

عام سے آدمی کو بھی عام سا آدمی نہ جان

بے خَبَری کی رکھ خبر، کم نَظَری پہ کر نظر

اُس بُتِ بے نیاز کے ظُلم کو دائمی نہ جان

یار ھے کوئی اور شَے، سو مرے فارسا ! اُسے

چاند نہ کہہ، صبا نہ بول، پھول نہ لکھ، پری نہ جان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]