یاقوت لب کو آنکھ کو تارہ نہ کہہ سکیں

ایسا نہ ہو کہ شعر دوبارہ نہ کہہ سکیں

وہ چھب کہ نقرئی کبھی زریں دکھائی دے

شعلہ نہ کہہ سکیں جسے پارہ نہ کہہ سکیں

سولی کے آسرے پہ ٹکی ہے شکستگی

خوش فہمیاں بھی تم کو سہارہ نہ کہہ سکیں

ہم کشتگان موج بلا جاں بلب سہی

ان دلدلوں کو ہم بھی کنارہ نہ کہہ سکیں

پس ماندگان سے بھی تقاضہ ہے ہوش کا ؟

یعنی کہ ہم کو لوگ تمہارا نہ کہہ سکیں

تیری کمی سے اور سوا ہے تری کمی

تجھ کو دکھا سکیں یہ خسارہ نہ کہہ سکیں

اب تاب دید کی نہ سکت ہے بیان کی

ہم روئیداد مرگ نظارہ نہ کہہ سکیں

بستی ہی جل رہی ہے یقیناً کہں پرے

ہم اس قدر دھوئیں کو اشارہ نہ کہہ سکیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]