یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
اہلِ دل سے یہ ترا ترکِ تعلق یعنی
وقت سے پہلے اسیروں کا رہا ہو جانا
یوں اگر ہو تو جہاں میں کوئی کافر نہ رہے
معجزہ ہے ترے وعدے کا وفا ہو جانا
زندگی! میں بھی چلوں گا ترے پیچھے پیچھے
تو مرے دوست کا نقشِ کفِ پا ہو جانا
آ گئی راس اگر مجھ کو اس آنچل کی ہوا
تو خفا مجھ سے نہ اے بادِ صبا ہو جانا
اے جہاں ہم کو عداوت سے نہیں ہے فرصت
پھر کبھی دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
یہ بھی تیرے قد و قامت سے چھپایا نہ گیا
اِک ستارے سے ترا ماہ لقا ہو جانا
جانے یہ کون سی کیفیت غمخواری ہے
میرے پیتے ہی قتیلؔ اس کو نشہ ہو جانا