یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

اہلِ دل سے یہ ترا ترکِ تعلق یعنی

وقت سے پہلے اسیروں کا رہا ہو جانا

یوں اگر ہو تو جہاں میں کوئی کافر نہ رہے

معجزہ ہے ترے وعدے کا وفا ہو جانا

زندگی! میں بھی چلوں گا ترے پیچھے پیچھے

تو مرے دوست کا نقشِ کفِ پا ہو جانا

آ گئی راس اگر مجھ کو اس آنچل کی ہوا

تو خفا مجھ سے نہ اے بادِ صبا ہو جانا

اے جہاں ہم کو عداوت سے نہیں ہے فرصت

پھر کبھی دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا

یہ بھی تیرے قد و قامت سے چھپایا نہ گیا

اِک ستارے سے ترا ماہ لقا ہو جانا

جانے یہ کون سی کیفیت غمخواری ہے

میرے پیتے ہی قتیلؔ اس کو نشہ ہو جانا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]