یوں ہی شعلے کو ہوا دیتا جا

اپنے ہونے کا پتہ دیتا جا

بے رُخی یوں نہ برت کام کے بعد

کچھ نہیں ہے تو دعا دیتا جا

چوٹ دینے میں بھی کچھ لگتا ہے

تو بھی کچھ نامِ خدا دیتا جا

سنگریزوں کا بھی حق ہے تجھ پر

خون ، اے آبلہ پا دیتا جا

سربلندی تو مری فطرت ہے

سر جھکاتا ہوں سزا دیتا جا

پھول ہاتھ آئیں تو رکھ دامن میں

اور کانٹوں کو قبا دیتا جا

کوئی دروازہ تو وا ہو گا ہی

سوچ لے اور صدا دیتا جا

سارے خط میں تجھے لوٹا دوں گا

تو مجھے خواب مرا دیتا جا

تلخ لہجہ ہے غزل کی خوشبو

شعر کو رنگ نیا دیتا جا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]