یہی دعا ہے یہی ہے سلام عشق بخیر

مرے سبھی رفقائے کرام! عشق بخیر

دیار ہجر کی سونی اداس گلیوں میں

پکارتا ہے کوئی صبح و شام عشق بخیر

سرک گیا جو ذرا خواب گاہ کا پردہ

فلک سے بول اُٹھا ماہِ تمام عشق بخیر

میں کر رہا تھا دعا کی گزارشیں اس سے

سو کہہ گئی ہے اداسی کی شام عشق بخیر

بڑے عجیب ہیں شہر جنوں کے باشندے

ہمیشہ کہتے ہیں بعد از سلام عشق بخیر

یہ رہ ضرور تمہارے ہی گھر کو جاتی ہے

لکھا ہوا ہے یہاں گام گام عشق بخیر

بیان کی ہے غزل وار داستان عشق

سو اس کتاب کا رکھا ہے نام عشق بخیر

افق کے پار مجھے یاد کر رہا ہے کوئی

ابھی ملا ہے ادھر سے پیام: عشق بخیر

اگر پیوں گا تو آداب ہی بدل دوں گا

کہوں گا جام سے ٹکرا کے جام عشق بخیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]