یہ برہمی یہ تری بے رخی قبول نہیں

کسی بھی رخ، یہ رخِ زندگی قبول نہیں

وہ سن لیں جن کو غمِ زندگی قبول نہیں

کہ زندگی کو بھی ان کی خوشی قبول نہیں

جو میرے ہوش اڑا دے، حواس گم کر دے

خدا پناہ کہ وہ آگہی قبول نہیں

نکالتا ہوں محبت کی کچھ نئی راہیں

شکستِ دل سے مجھے آشتی قبول نہیں

خودی کو میری جگا دے، وہ مئے پلا ساقی

خطا معاف، مئے بے خودی قبول نہیں

پیامِ مرگ ہی لائے نہ کیوں، سحر تو ہو

شبِ فراق کی یہ تیرگی قبول نہیں

یہ قہقہے یہ تبسم تجھے مبارک ہوں

کہ چار دن کی مجھے چاندنی قبول نہیں

رہِ حیات ہے واضح بفضلِ رب اپنی

اِدھر اُدھر کی نظرؔ کج روی قبول نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]