یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے

پھنکا جاتا ہے دل سوزِ نہاں سے

بھلا آئے یقیں ہم کو کہاں سے

ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے

گلے مل لوں ذرا عمرِ رواں سے

اٹھایا جا رہا ہوں آستاں سے

ہوا خونِ تمنا اشک نکلے

کہاں کی بات ظاہر ہے کہاں سے

اُنھیں مائل کیا میں نے وفا پر

کہ تارے توڑ لایا آسماں سے

غموں کی چوٹ سے آنسو نہ نکلیں

وہ دل پتھر کا میں لاؤں کہاں سے

نظرؔ آتے ہیں وہ حیراں پشیماں

سنایا تھا ابھی کچھ داستاں سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]