یہ خطِ حسن ہے لوحِ جہاں پہ تیرا نام

سبک ہواؤں پہ موجِ رواں پہ تیرا نام

بشکل خوشبو فضاؤں کی جاں پہ تیرا نام

بہار بن کے ملا گلستاں پہ تیرا نام

شفق کی سرخی میں تیری نشانیاں پنہاں

لکھا ہوا ہے رخِ کہکشاں پہ تیرا نام

گلوں کی خندہ لبی میں ترے وجود کا عکس

حیات چھیننے والی خزاں پہ تیرا نام

ہے امتحانِ جگر گوشۂ رسول کریم

ہے کربلا کی دکھی داستاں پہ تیرا نام

بتا گیا ہے مجھے عشقِ سرمد و منصور

مچل رہا تھا لبِ عاشقاں پہ تیرا نام

ہزاروں نعمتیں بخشی ہیں تو نے اے مولا

متینؔ کیسے نہ لائے زباں پہ تیرا نام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]