یہ خوف سانپ کا دل سے نکالنا ہے مجھے

سو آستین میں اک سانپ پالنا ہے مجھے

نہیں ہے اجنبی مہتاب کی مجھے حاجت

یہ رات اپنے دیوں سے اجالنا ہے مجھے

یہ کھیل عشق کا ہے اس میں مات ہے ہی نہیں

ہوا میں عشق کا سکہ اچھالنا ہے مجھے

یہ رستہ عام ہے اس پر تو سب ہی چلتے ہیں

پئے سفر نیا رستہ نکالنا ہے مجھے

یہ میرے سینے کے پنجرے سےاڑ نہ جائے کہیں

سو اس پرندہء دل کو سنبھالنا ہے مجھے

خطا معاف اگر میرا بس چلے تو ابھی

خرد کو عشق کے سانچے میں ڈھالنا ہے مجھے

رہ ہوس سے بچا کر رہ محبت پر

کہ نا سمجھ دل نوری کو ڈالنا ہے مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]