یہ دھڑکنوں کی درود خوانی کوئی اشارہ ہے حاضری کا

صبا کی خوشبو بتا رہی ہے کہ پھر بلاوا ہے حاضری کا

مرے سفر میں ہو دیر شاید ابھی ہے کچھ انتظام باقی

مگر میں دل کو سنبھالوں کیسے کہ دل دوانہ ہے حاضری کا

لگی ہیں ان کے کرم پہ آنکھیں وہ اذن دیں تو نصیب جاگیں

میں اپنی پلکوں پہ چل کے جاؤں یہی سلیقہ ہے حاضری کا

وہ یاد آئی ہے ان کی بستی نظر میں چھائی ہے چاندنی سی

بدن میں خوشبو اتر گئی ہے خیال آیا ہے حاضری کا

چنوں میں پلکوں سےخارِ طیبہ ملوں گا چہرے پہ خاکِ انور

میں اڑ کے پہنچوں درِ نبی پر کہ شوق جاگا ہے حاضری کا

خموش لب ہیں نگاہیں نیچی ہر اک گدا کی ہے پھیلی جھولی

کرم کی برکھا برس رہی ہے عجب نظارا ہے حاضری کا

ظفر گناہوں کا بار لے کر حضورِ رحمت مآب حاضر

زرِ شفاعت کی بھیک پائی عجیب ثمرہ ہے حاضری کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]