یہ مرا غم کسی صورت نہیں گھٹنے والا

ناخدا تھا مری کشتی کو اُلٹنے والا

لذتِ درد کا موسم بھی کبھی بدلا ہے؟

ابرِ غم سر سے یہ برسوں نہیں چھَٹنے والا

چھوڑ کر دیکھ تو احساس کا دامن اے دل

غم رہے گا نہ کوئی جاں سے لپٹنے والا

راہِ تسکین پہ لے آئی تمنا مجھ کو

زندگی بھر بھی سفر اب نہیں کٹنے والا

مانتا ہوں کہ نظر مجھ کو ملی ہے لیکن

کوئی منظر بھی تو ہو دل میں سمٹنے والا

حرمت حرفِ یقیں دل پر اُتاری جائے

میں کوئی نام زبانی نہیں رَٹنے والا

ملک الموت اٹھائے تو اٹھائے آ کر

میں ترے در سے ہٹائے نہیں ہٹنے والا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]