یہ کہاں میرے اپنے بس میں ہے
دل شہِ دیں کی دسترس میں ہے
تیری نسبت سے ہُوں چمن آثار
ورنہ کیا میرے خار و خس میں ہے
پُوری کر دیجیے بہ اذنِ سفر
اک کمی سی جو اِس برس میں ہے
جو بھی چاہے درِ کریم سے مانگ
کیوں دلِ زار پیش و پس میں ہے
کتنی دل جُو ہے وہ شعاعِ جمال
سبز گنبد کے جو کلَس میں ہے
اسمِ شیریں ہے آپ کا لب پر
اور تلطف نفَس میں ہے
قیدِ غم سے کریں گے آپ رہا
یہ کرم آپ ہی کے بس میں ہے
مطمئن ہُوں کہ مغفرت میری
میرے آقا کی دسترس میں ہے
بے عنایت ثنا گری مقصودؔ
کس کی ہمت میں ، کس کے بس میں ہے