یہ کہاں میرے اپنے بس میں ہے

دل شہِ دیں کی دسترس میں ہے

تیری نسبت سے ہُوں چمن آثار

ورنہ کیا میرے خار و خس میں ہے

پُوری کر دیجیے بہ اذنِ سفر

اک کمی سی جو اِس برس میں ہے

جو بھی چاہے درِ کریم سے مانگ

کیوں دلِ زار پیش و پس میں ہے

کتنی دل جُو ہے وہ شعاعِ جمال

سبز گنبد کے جو کلَس میں ہے

اسمِ شیریں ہے آپ کا لب پر

اور تلطف نفَس میں ہے

قیدِ غم سے کریں گے آپ رہا

یہ کرم آپ ہی کے بس میں ہے

مطمئن ہُوں کہ مغفرت میری

میرے آقا کی دسترس میں ہے

بے عنایت ثنا گری مقصودؔ

کس کی ہمت میں ، کس کے بس میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]