مَیں نڈھال ہُوں تو نہال کر ، مَیں ہُوں بے ہُنر تو کمال دے
مرے بے نمود خیال کو ، ذرا اپنا عکسِ خیال دے
کوئی خوف سا ہے پسِ نہاں ، کوئی حُزن سا ہے قرینِ دل
کسی رتجگے کی اُداس شب ، مجھے لمسِ خوابِ وصال دے
ترے پاس آیا ہُوں عفو جُو ، بہ حصارِ شعلۂ معصیت
کوئی موجِ قُلزم مغفرت ، مری فردِ جاں پہ اُچھال دے
مَیں نہیں ہُوں مَحرمِ دوستاں ، مَیں نہیں ہُوں واقفِ دشمناں
مجھے اپنے در پہ بحال رکھ ، مجھے اپنے گھر کا نوال دے
کسی شب نژاد فصیل سے کوئی مہرِ وصل طلوع کر
کسی صبحِ نور سے بیشتر ، مری شامِ ہجر اُجال دے
مَیں سکوتِ تام کی بے بسی کے حصار میں ہوں شکستہ دَم
مرے دل میں صوتِ درود رکھ ، مرے لب کو اذنِ مقال دے
تری نعتِ نُور کے کیف میں کٹے منظرِ دَمِ واپسیں
کوئی اذنِ ناز کے معجزے ، مرے دستِ عجز میں ڈال دے
مَیں ہُوں مضمحل ، مَیں ہُوں منفعل ، مَیں ہُوں دَم گرفتہ ، شکستہ دل
مَیں خجل نژاد نیاز ہُوں ، مجھے تابِ حرفِ سوال دے