کیسی شدت سے تجھے ہم نے سراہا ، آہا

تیری پرچھائیں کو بھی ٹوٹ کے چاہا ، آہا

آخری سانس کی لذت کوئی اُس سے پوچھے

مرتے مرتے بھی جو بیمار کراہا ، آہا

شعر کہنا ہے تو یوں کہہ کہ ترا دشمن بھی

دُشمنی بھول کے چِلا اُٹھے ، آہا ، آہا

تیری آنکھوں میں کھٹکتا ہے مرے جیسا فقیر

کیسا اعلیٰ ترا معیار ہے ، شاہا ، آہا

کل میرے حق میں تھا اور آج مخالف ہوا تو

کیسے بدلا ہے بیاں تو نے گواہا ، آہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]