کوئی صدا ، سوال ، طلب ، کچھ نہیں رہا

اب ماسوائے جان ، بہ لب ، کچھ نہیں رہا

اب ہمکلام ہو ، تو ذرا احتیاط سے

لہجے میں اب لحاظ ، ادب ، کچھ نہیں رہا

جوڑا تھا جو وجود بدقت ، بکھر چکا

تم آج لوٹتے ہو کہ جب کچھ نہیں رہا

اُٹھتے ہیں اُس کے ہاتھ فقط الوداع کو اب

گویا بساطِ عشق میں اب کچھ نہیں رہا

تم میں ہر ایک خواب کی پیوست تھی جڑیں

جب تم نہیں رہے ہو تو سب کچھ نہیں رہا

شاید کہ ہار مان چکی ہیں ، محبتیں

ورنہ جنوں کے ہاتھ میں کب کچھ نہیں رہا

آوارگی ، مزاج بھی ٹھہری ، نصیب بھی

ویسے تو ہجرتوں کا سبب کچھ نہیں رہا

عریاں ہے شرمسار بدن ، دِن کی بھیڑ میں

آخر درونِ چادرِ شب ، کچھ نہیں رہا

اِک بار بات کی تھی عروسِ خیال نے

ناصر ، سخن کے ظرف میں تب کچھ نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]