کیا بتلائیں بعد کسی کے آنکھوں میں کیا کیا رکھا ہے

ساری عمر نبھانا ہے جو ایسا وعدہ رکھا ہے

اس کی آنکھ نے خوابوں کی تعبیریں ایسے ڈھونڈیں تھیں

جیسے لوحِ حیات پہ اک کاغز کورا سا رکھا ہے

چشمِ کشائی کا لمحہ تو ایسا نازک لمحہ تھا

ہر سائل کے ہاتھوں پر اپنا ہی کاسہ رکھا ہے

رنگ و نور کی یہ محفل تو دھوکا تھا اور دھوکا ہے

ہم نے ایک چراغ کو اس خاطر ہی اپنا رکھا ہے

خاک نشیں اب گوشہ نشیں ہے قصر ریحانہ میں ہائے

ہر اک یاد کو خون جگر سے میں نے طاہر لکھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]