کیا خوب مدینہ کے گلستاں میں پھرے تھا

محبوب کے جلوؤں کے چراغاں میں پھرے تھا

پہچان لیا خود کو محمد کی بدولت

پہلے تو بس اک صورت انساں میں پھرے تھا

کیا عشق فروزاں تھا مرے آلِ نبی میں

کیا نورِ نبی خونِ شہیداں میں پھرے تھا

بس ایک اشارے پہ بدن چاک ہوا وہ

کیا عشق کا جذبہ مہ تاباں میں پھرے تھا

کیا لطف تھا مت پوچھیے، گل شہرِ نبی میں

اخلاق و محبت کے دبستاں میں پھرے تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]