کیا عجب لطف و عنایات کا در کھُلتا ہے

جب تری نعت کی خیرات کا در کھُلتا ہے

موجۂ اذنِ سفر دیتا ہے حیرت کو نمو

عرض سے پہلے مدارات کا در کھُلتا ہے

نعت بے صوت عقیدت کا ہے اعجازِ سخن

قریۂ دل میں مناجات کا در کھُلتا ہے

پہلے کھِلتا ہے کفِ عرض پہ امکانِ درود

بعد میں شہرِ سماوات کا در کھُلتا ہے

جب کریں چارہ گری، چارہ گرِ کربِ نہاں

عرصۂ خیر کی ساعات کا در کھُلتا ہے

ایک احساس چمکتا ہے سرِ بامِ طلب

خواب کے طاق میں لمعات کا در کھُلتا ہے

کعبۂ دل کو رواں ہو یہ تمنا، لیکن

اذن ملتا ہے تو میقات کا در کھُلتا ہے

اوجِ تقدیر پہ جب ہوتا ہے وہ اِسم طلوع

بند ہوتے ہُوئے حالات کا در کھُلتا ہے

اُن کی مرضی پہ ہے موقوف جہانِ قسمت

اُن کی بخشش سے ہی نِعمات کا در کھُلتا ہے

تیری آہٹ سے ہے وَا بابِ شہودِ کونین

روبرو تیرے، سوالات کا در کھُلتا ہے

حرفِ بے نُور کو مقصودؔ مقفل کر لے

بہرِ مدحت ابھی آیات کا در کھُلتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]