کیا مری بات پر یقین نہیں ؟؟

یار!! بہتر ہوں بہترین نہیں

دیکھنے کی طلب فضول کہ میں

عام سی ہوں ، بہت حسین نہیں

شعر کہہ کہہ کے تھک بھی سکتی ہوں

شاعرہ ہوں کوئی مشین نہیں

وہ بھی نقاد ہیں مرے، جن کی

بحر اپنی ، کوئی زمین نہیں

وہ تو ہم نے بنا لیا مذہب

ورنہ یہ عشق کوئی دین نہیں

اک تجھے دیکھنے کا شوق ہے بس

کم سے کم یہ تو مجھ سے چھین نہیں

کیا کروں گی میں وسعتِ صحرا

میں کسی دشت کی مکین نہیں

میں نے آنے کا ایک بار کہا

اس نے میسج پہ بھیجیں "​تین”​،،”​نہیں”​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]