کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی

وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی

کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی

سوتی ہوئی تقدیر جگائی نہیں جاتی

کچھ شکوہ نہ کرتے نہ بگڑتا وہ شب وصل

اب ہم سے کوئی بات بنائی نہیں جاتی

دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر

یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی

دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر

یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی

کہتی ہے شب ہجر بہت زندہ رہوگے

مانگا کرو تم موت ابھی آئی نہیں جاتی

وہ ہم سے مکدر ہیں تو ہم ان سے مکدر

کہہ دیتے ہیں صاف اپنی صفائی نہیں جاتی

ہم صلح بھی کر لیں تو چلی جاتی ہے ان میں

باہم دل و دلبر کی لڑائی نہیں جاتی

خود دل میں چلے آؤ گے جب قصد کرو گے

یہ راہ بتانے سے بتائی نہیں جاتی

چھپتی ہے جلالؔ آنکھوں میں کب حسرت دیدار

سو پردے اگر ہوں تو چھپائی نہیں جاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]