کیوں پھرتی ہے کھولے ہوئے بالوں کو بھلا شام

مانگا کرے شامِ درِ طیبہ کی دعا شام

ڈوبے ہیں کئی اِس کے تبحُّر میں زمانے

تکتی ہے ترے گیسوئے خمدار کو کیا شام ؟

غم ہائے زمانہ میں تسلّی کا سبب ہے

وہ قافلہِ درد جو کربل سے چلا شام

دل شامِ درِ یار کا عاشق ہے، سو خوش ہے

تو اپنی طبیعت کا بتا، اپنی سنا شام !

آ زائرِ طیبہ کی نگاہوں کا نشہ دیکھ

اے مستئِ چشمان و دلِ میکدہ آشام

ذوقِ دلِ عشّاق کو تسکین بھی دے گی

کھا آئے مدینے کی اگر آب و ہوا شام

آغازِ شبِ ہجر کے ہونے پہ ہو نادم

سن لے جو شبِ ہجر میں عاشق کی صدا شام

آپ اپنے تبسم سے تبسم کو بچا لیں

درپے ہے مرے اے شہِ لَوْلَاکَ لَمَا ! شام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]