گئی فصل بہار گلشن سے

بلبلوں اڑ چلو نشیمن سے

فاتحہ بھی پڑھا نہ تربت پر

جا کے لوٹ آئے میری مدفن سے

مجھ کو کافی تھی قید حلقۂ زلف

بیڑیاں کیوں بنائیں آہن سے

زلف کے پیچ سے نہ رہ غافل

دوستی کر دلا نہ دشمن سے

ہو گریباں کا چاک خاک رفو

تار ہاتھ آئے جب نہ دامن سے

ناز و عشوہ نیا نہیں سیکھا

شوخ طرار ہے لڑکپن سے

چھوڑ کر تم اگر گئے تنہا

جی نکل جائے گا مرے تن سے

ہے کئی دن سے منتظر رعناؔ

جلوہ دکھلاؤ آ کے چلمن سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]